ہاتھی والوں کا انجام

سیرت النبی قسط نمبر 4

ہاتھی والوں کا انجام




ابرہہ کے ہاتھی کو اٹھانے کی مسلسل کوشش جاری تھی کہ اچانک سمندر کی طرف سے ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کو بھیج دیا۔وہ ٹڈیوں کے جھنڈ کی طرح آئیں۔
دوسری طرف عبدالمطلب مکہ میں داخل ہوئے ۔ حرم میں پہنچے اور کعبہ کے دروازے کی زنجیرپکڑ کر ابرہہ اور اس کے لشکر کےے خلاف فتح کی دعا مانگی۔ان کی دعا کے الفاظ یہ تھے۔
"اے اللہ! یہ بندہ اپنے قافلے اور اپنی جماعت کی حفاظت کررہے ہیں تو اپنے گھر یعنی بیت اللہ کی حفاظت فرما۔ابرہہ کا لشکر فتح نہ حاصل کرسکے۔ان کی طاقت تیری طاقت کے آگے کچھ بھی نہیں، آج صلیب کامیاب نہ ہو۔"صلیب کا لفظ اس لیے بولا کہ ابرہہ عیسائی تھا اور صلیب کو عیسائی اپنے نشان کے طور پر ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
اب انہوں نے اپنی قوم کو ساتھ لیا اور حرا پہاڑ پر چڑھ گئے، کیونکہ ان کا خیال تھا، وہ ابرہہ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔یہ پرندے چڑیا سے قدرے بڑے تھے۔ان میں سے ہر پرندے کی چونچ میں پتھر کے تین تین ٹکڑے تھے۔یہ پتھر پرندوں نے ابرہہ کے لشکر پر گرانے شروع کیے۔جونہی یہ پتھر ان پر گرے، ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، بالکل اسی طرح جیسے آج کسی جگہ اوپر سے بم گرایا جائے تو جسموں کے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں۔ابرہہ کا ہاتھی محمود البتہ ان کنکریوں سے محفوظ رہا۔باقی سب ہاتھی تہس نہس ہوگئے۔ یہ ہاتھی 13 عدد تھے۔سب کے سب کھائے ہوئے نحوست کے مانند ہوگئے۔جیسا کہ سورۃ الفیل میں آتا ہے۔
ابرہہ اور اس کے کچھ ساتھی تباہی کا یہ منظر دیکھ کر بری طرح بھاگے۔لیکن پرندوں نے ان کو بھی نہ چھوڑا۔ابرہہ کے بارے میں طبقات میں لکھا ہے کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ ہوکر گرتا چلا گیا۔یعنی وہ بھاگ رہا تھا اور اس کے جسم کا ایک ایک حصہ الگ ہوکر گررہا تھا۔
دوسری طرف عبدالمطلب اس انتظار میں تھے کہ کب حملہ ہوتا ہے، لیکن حملہ آور جب مکہ میں داخل نہ ہوئے تو وہ حالات معلوم کرنے کے لیے نیچے اترے۔مکہ سے باہر نکلے، تب انہوں نے دیکھا، سارا لشکر تباہ ہوچکا ہے۔خوب مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا۔بےشمار سامان ہاتھ آیا ، مال میں سونا چاندی بھی بےتحاشا تھا۔
لشکر میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو واپس نہیں بھاگے تھے۔یہ مکہ میں رہ گئے تھے ان میں ابرہہ کے ہاتھی کا مہاوت بھی تھا جو محمود کو آگے لانے میں ناکام رہا تھا۔
ہمارے نبی .حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے چند دن بعد پیدا ہوئے۔آپ جس مکان میں پیدا ہوئے، وہ صفا پہاڑی کے قریب تھا۔.حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ میں ہوگی، یہ کعب پہلے یہودی تھے، اس لیے تورات پڑھا کرتے تھے۔
دنیا میں آتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روئے۔.حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ کہتی ہیں کہ جب .حضرت آمنہ کے ہاں ولادت ہوئی تو میں وہاں موجود تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاتھوں میں آئے۔یہ غالبآ دایہ تھی۔ان کا نام شفا تھا۔فرماتی ہیں: جب آپ میرے ہاتھوں میں آئے تو روئے۔
آپ کے دادا عبدالمطلب کو آپ کی ولادت کی اطلاع دی گئی۔وہ اس وقت خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔اطلاع ملنے پر گھر آئے۔بچے کو گود میں لیا۔اس وقت آپ کی والدہ نے ان سے کہا: 
"یہ بچہ عجیب ہے، سجدے کی حالت میں پیدا ہوا ہے، یعنی پیدا ہوتے ہی اس نے پہلے سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر انگلی آسمان کی طرف اٹھائی۔"
عبدالمطلب نے آپ کو دیکھا۔اس کے بعد آپ کو کعبہ میں لے آئے۔آپ کو گود میں لیے رہے اور طواف کرتے رہے۔پھر واپس لاکر حضرت آمنہ کو دیا۔آپ کو عرب کے دستور کے مطابق ایک برتن سے ڈھانپا گیا، لیکن وہ برتن ٹوٹ کر آپ کے اوپر سے ہٹ گیا۔اس وقت آپ اپنا انگوٹھا چوستے نظر آئے۔
اس موقع پر شیطان بری طرح چیخا۔تفسیر ابن مخلد میں ہے کہ شیطان صرف چار مرتبہ چیخا، پہلی بار اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے اسے معلون ٹھہرایا، دوسری بار اس وقت جب اسے زمین پر اتارا گیا، تیسری بار اس وقت چیخا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور چوتھی مرتبہ اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔
اس موقع پر .حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: 
"میں آٹھ سال کا تھا، جو کچھ دیکھتا اور سنتا تھا، اس کو سمجھتا تھا ۔ایک صبح میں نے یثرب یعنی مدینہ منورہ میں ایک یہودی کو دیکھا، وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر چلا رہا تھا۔لوگ اس یہودی کے گرد جمع ہوگئے اور بولے: 
"کیا بات ہے، کیوں چیخ رہے ہو؟ "
یہودی نے جواب دیا: 
"احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے اور وہ آج رات پیدا ہوگئے ہیں۔"
.حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بعد میں 60 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے۔120 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔گویا ایمان کی حالت میں 60 سال زندہ رہے۔بہت اچھے شاعر تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اشعار میں تعریف کیا کرتے تھے اور دشمنوں کی برائی اشعار میں بیان کرتے تھے۔غزوات کے موقع پر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو جوش دلاتے تھے۔اسی بنیاد پر انہیں شاعر رسول کا خطاب ملا تھا۔
.حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کی خبر دے دی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا تھا: 
"تمہارے نزدیک جو مشہور چمک دار ستارہ ہے، جب وہ حرکت میں آئے گا، تو وہی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا ہوگا۔"
یہ خبر بنی اسرائیل کے علماء ایک دوسرے کو دیتے چلے آئے تھے اور اس طرح بنی اسرائیل کو بھی آنحضرت کی ولادت کا وقت یعنی اس کی علامت معلوم تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عالم مکہ میں رہتا تھا، جب وہ رات آئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو وہ قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا، اس نے کہا: 
"کیا تمہارے ہاں آج کوئی بچہ پیدا ہوا ہے۔"
لوگوں نے کہا: 
"ہمیں تو معلوم نہیں۔"
اس پر اس یہودی نے کہا: 
"میں جو کچھ کہتا ہوں، اسے اچھی طرح سن لو، آج اس امت کا آخری نبی پیدا ہوگیا ہے اور قریش کے لوگوں! وہ تم میں سے ہے، یعنی وہ قریشی ہے۔اس کے کندھے کے پاس ایک علامت ہے( یعنی مہر نبوت)اس میں بہت زیادہ بال ہیں۔یعنی گھنے بال ہیں اور یہ نبوت کا نشان ہے۔نبوت کی دلیل ہے۔اس بچے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ دو رات تک دودھ نہیں پیے گا۔ان باتوں کا ذکر اس کی نبوت کی علامات کے طور پر پرانی کتب میں موجود ہے۔
علامہ ابن حجر نے لکھاہےکہ یہ بات درست ہے، آپ نے دودن تک دودھ نہیں پیاتھا-
یہودی عالم نے جب یہ باتیں بتائیں تولوگ وہاں سے اٹھ گئے-انہیں یہودی کی باتیں سن کر بہت حیرت ہوئی تھی-جب وہ لوگ اپنے گھروں میں پہنچےتوان میں سے ہر ایک نے اس کی باتیں اپنے گھرکےافرادکوبتائیں، عورتوں کوچونکہ حضرت آمنہ کےہاں بیٹاپیداہونےکی خبرہوچکی تھی، اس لیے انہوں نے اپنےمردوں کوبتایاں:
ذراچل کر مجھے وہ بچہ دکھاؤ-،، 
لوگ اسےساتھ لیےحضرت آمنہ کےگھرکےباہرآئے، ان سے بچہ دکھانےکی درخواست کی-آپ نے بچےکوکپڑے سےنکال کرانہیں دےدیا-لوگوں نے آپ کےکندھے پرسے کپڑاہٹایا-یہودی کی نظر جونہی مہرنبوت پر پڑی، وہ فوراًبےہوش ہوکرگر پڑا، اسے ہوش آیاتو لوگوں نے اس سےپوچھا: 
تمہیں کیاہوگیاتھا-،، 
جواب میں اس نےکہا: 
میں اس غم سے بےہوش ہواتھاکہ میری قوم میں سےنبوت ختم ہوگئ..اور اے قریشیو! اللہ کی قسم! یہ بچہ تم پر زبردست غلبہ 
حاصل کرےگا اور اس کی شہرت مشرق سے مغرب تک پھیل جائےگی-،،
جاری ہے.

تبصرے