سیرت النبی قسط نمبر 23
اسلام کا پہلا مرکز۔دارِ ارقم
حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے. آپ نے دونوں کو اپنے پاس بٹھایا. جب یہ بیٹھ گئے تو آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کریم کی جو آیات آپ پر اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں، وہ پڑھ کر سنائیں. ان دونوں نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا. اسی روز شام تک یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہے. شام کو دونوں چپکے سے چلے آئے، حضرت عمار رضی اللہ عنہ سیدھے اپنے گھر پہنچے تو ان کے ماں باپ نے ان سے پوچھا کہ دن بھر کہاں تھے. انہوں نے فوراً ہی بتا دیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں. ساتھ ہی انہوں نے ان کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اور اس دن انہوں نے قرآن پاک کا جو حصہ یاد کیا تھا وہ ان کے سامنے تلاوت کیا. ان دنوں کو یہ کلام بے حد پسند آیا. دونوں فورا ہی بیٹے کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے. اسی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو الطیب المطیب کہا کرتے تھے یعنی پاک باز اور پاک کرنے والے.
اسی طرح حضرت عمران رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو کچھ عرصے بعد ان کے والد حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو گئے. ان کے اسلام لانے کی تفصیل یوں ہے.
ایک مرتبہ قریش کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لئے آئے. ان میں حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی تھے. قریش کے لوگ تو باہر رہ گئے. حصین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا.
ان بزرگ کو جگہ دو.
جب وہ بیٹھ گئے تب حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے کہا.
یہ آپ کے بارے میں ہمیں کیسی باتیں معلوم ہو رہی ہیں، آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا.
اے حصین آپ کتنے معبودوں کو پوجتے ہیں؟
حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا.
ہم سات معبودوں کی عبادت کرتے ہیں. ان میں سے چھ تو زمین میں ہیں، ایک آسمان پر
اس پر آپ نے فرمایا.
اور اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو پھر آپ کس سے مدد مانگتے ہیں
حضرت حصین رضی اللہ عنہ بولے.
اس صورت میں ہم اس سے دعا مانگتے ہیں جو آسمان میں ہے.
یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا.
وہ تو تنہا تمہاری دعائیں سن کر پوری کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہو. اے حصین کیا تم اپنے اس شرک سے خوش ہو. اسلام قبول کرو، اللہ تعالٰی تمہیں سلامتی دے گا.
حضرت حصین رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی مسلمان ہو گئے. اسی وقت ان کے بیٹے حضرت عمران رضی اللہ عنہ اٹھ کر باپ کی طرف بڑھے اور ان سے لپٹ گئے.
اس کے بعد حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا.
انہیں ان کے گھر تک پہنچا کر آئیں.
حضرت حصین رضی اللہ عنہ جب دروازے سے باہر نکلے تو وہاں قریش کے لوگ موجود تھے. انہیں دیکھتے ہی بولے.
لو یہ بھی بے دین ہو گیا.
اس کے بعد وہ سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور صحابہ کرام نے حضرت حصین رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر تک پہنچایا.
اسی طرح تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے. اس دوران جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا. وہ مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ کر نمازیں ادا کرتا تھا. پھر ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں تھے کہ اچانک وہاں قریش کی ایک جماعت پہنچ گئی. اس وقت صحابہ نماز پڑھ رہے تھے. مشرکوں کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا، وہ ان پر چڑھ دوڑے، ساتھ میں برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایسے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اس کو ایک ضرب لگائی. اس سے اس کی کھال پھٹ گئی، خون بہہ نکلا. یہ پہلا خون ہے جو اسلام کے نام پر بہایا گیا.
اب قریشی دشمنی پر اتر آئے. اس بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے آئے تاکہ دشمنوں سے بچاؤ رہے. اس طرح حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا یہ مکان اسلام کا پہلا مرکز بنا. اس مکان کو دار ارقم کہا جاتا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دار ارقم میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں کی ایک جماعت مسلمان ہو چکی تھی. اب نماز دار ارقم میں ادا ہونے لگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہیں پر نماز پڑھاتے، وہیں بیٹھ کر عبادت کرتے اور مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیتے. اس طرح تین سال گزر گئے. پھر اللہ تعالٰی نے آپ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم فرمایا. اعلانیہ تبلیغ کی ابتدا بھی دار ارقم سے ہوئی، پہلے آپ یہاں خفیہ طور پر دعوت دیتے رہے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے سورہ الشعراء میں آپ کو حکم فرمایا.
اور آپ اپنے نزدیک کے اہل خاندان کو ڈرائیے.
یہ حکم ملتے ہی آپ کافی پریشان ہوئے. یہاں تک کہ آپ کی پھوپھیوں نے خیال کیا کہ آپ کچھ بیمار ہیں چنانچہ وہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آپ کے پاس آئیں. تب آپ نے ان سے فرمایا.
میں بیمار نہیں ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤں. اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمام بنی عبد المطلب کو جمع کروں اور انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دوں.
یہ سن کر آپ کی پھوپھیوں نے کہا.
ضرور جمع کریں مگر ابو لہب کو نہ بلائیے گا کیونکہ وہ ہرگز آپ کی بات نہیں مانے گا.
ابو لہب کا دوسرا نام عبد العزی تھا. یہ آپ کا چچا تھا اور بہت خوبصورت تھا مگر بہت سنگدل اور مغرور تھا.
دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی عبد المطلب کے پاس دعوت بھیجی. اس پر وہ سب آپ کے ہاں جمع ہو گئے. ان میں ابو لہب بھی تھا. اس نے کہا.
یہ تمہارے چچا اور ان کی اولادیں جمع ہیں تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، اور اپنی بے دینی کو چھوڑ دو، ساتھ ہی تم یہ بھی سمجھ لو کہ تمہاری قوم میں یعنی ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری خاطر سارے عربوں سے دشمنی لے سکیں، لہذا اگر تم اپنے معاملے پر اڑے رہے تو خود تمہارے خاندان والوں ہی کا سب سے زیادہ فرض ہو گا کہ تمہیں پکڑ کر قید کر دیں، کیونکہ قریش کے تمام خاندان اور قبیلے تم پر چڑھ دوڑیں، اس سے تو یہی بہتر ہو گا کہ ہم ہی تمہیں قید کر دیں. اور میرے بھتیجے حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو چیز اپنے رشتے داروں کے سامنے پیش کی ہے اس سے بد تر چیز کسی اور شخص نے آج تک پیش نہیں کی ہوگی. آپ نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی اور حاضرین کو اللہ کا پیغام سنایا. آپ نے فرمایا.
اے قریش. کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.
آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا.
اے قریش، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.
وہاں صرف آپ کے رشتے دار ہی جمع نہیں تھے بلکہ قریش کے دوسرے قبیلے بھی موجود تھے، اس لیے آپ نے ان کے قبیلوں کے نام لے لے کر انہیں مخاطب فرمایا یعنی آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے.
اے بنی ہاشم، اپنی جانوں کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ.... اے بنی عبد شمس، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاو، اے بنی عبد مناف، اے بنی زہرہ، اے کعب بن لوی، اے بنی مرو بن کعب، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے صفیہ، محمد کی پھوپھی، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ الفاظ بھی فرمائے.
نہ میں دنیا میں تمہیں فائدہ پہنچا سکتا ہوں نہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں. سوائے اس صورت کے کہ تم کہو لا الہ الا اللہ. چونکہ تمہاری مجھ سے رشتہ داری ہے اس لیے اس کے بھروسے پر کفر اور شرک کے اندھیروں میں گم نہ رہنا.
اس پر ابو لہب آگ بگولہ ہو گیا. اس نے تلملا کر کہا.
تو ہلاک ہو جائے. کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا.
پھر سب لوگ چلے گئے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں