ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور نوجوان نسل پر اسکا اثر
مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا اور بدتہذیبی اور بدکرداری کے نئے نئے
طریقوں کو ایجاد کیا جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا
شکار ہوتا جارہا ہے ۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا
شروع کیا اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات واہیات اور بداخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے ، چناں چہ ان ہی
میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس کو ’’یوم عاشقاں‘ یا ’یوم محبت‘‘ کے نام سے منایا جا تا ہے اور تمام اخلاقی
حدوں کو پامال کیا جا تا ہے ، بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور تہذیب و شرافت کے خلاف کاموں کو
انجام دیا جا تا ہے، ناجائز طور پر اظہار محبت کے لئے اس دن کا خاص اہتمام کیا جا تا ہے ۔ چند سال قبل یہ لعنت
اس درجہ ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نو جوان طبقہ اس کا غیر معمولی اہتمام کرنے لگا ہے،
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے
دیگر تمام دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیوں کہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل اور اپنے جذبات کا اظہار
کر سکتے ہیں اور غیر شرعی وغیر اخلاقی طور پر محبت کا راگ الاپ سکتے ہیں جب کہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی
اعتبار سے اس کی بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش جنوں اور دیوانگی
میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔آیئے اس کی حقیقت اور تاریخ کو جانتے ہیں تا کہ
اس لعنت سے مسلم نو جوانوں کو بچایا جا سکے ۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت:
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ، اس کی ابتداء کے لئے کئی ایک واقعات کو منسوب کیا
جا تا ہے ۔ جن میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ : سترھو میں صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک
راہبہ کی محبت میں مبتلا ہو گیا، چوں کہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا ، اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا
ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جاۓ گا۔ راہبہ نے
اس پر یقین کر لیا اور دونوں سب کچھ کر گزرے ۔کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو
عموما ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کر دیا گیا، کچھ عرصے بعد چندلوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا
اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کر دیا ۔( ویلینٹائن ڈے:7 )
بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا
مان کر یہ دن اس کے نام کر دیا ۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ ( محبت کے دیوتا ) اور وینس
( حسن کی دیوی ) سے موسوم کر تے ہیں ، یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جواپنی محبت کے
زہر بھجے تیر نوجوانوں دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم
رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں ۔ ( پادریوں کے کرتوت 285 ) اور بعض نے
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار
کے طور پر منایا جار ہا ہے یا ویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جونئی روایت چل پڑی ہے اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے
بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لو پر کالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بارآوری یا
پرندوں کے ایام اختلاط سے ہے ۔ ( ویلٹائن ڈے ، تاریخ حقائق اور اسلام کی نظر میں :40)
واقعہ بہر حال جو بھی ہوا ور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو لیکن آج اس رسم بد نے ایک طوفان
بے حیائی بر پا کر دیا ،عفت وعصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو پامال کر دیا اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں
میں آزادی اور بے با کی کو پیدا کر دیا ، معاشرہ کو پراگندہ کرنے اور حیا واخلاق کی تعلیمات ، اور جنسی بے راور وی
کوفروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا، بر سر عام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم وحیا ، ادب
و شرافت کو ختم کر ڈالا، اس کی وجہ سے جو نہایت شرمناک واقعات رونماں ہور ہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور
جامعات میں جس قسم کی بے حیائی بڑھتی جارہی ہے اس کے لئے بعض قلم کاروں نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں
( او پر حوالے میں جن کتابوں کے نام ہم نے پیش کئے اس کا مطالعہ بھی کافی ہے تا کہ اس بے ہودگی سے
نوجوان نسل کو روکا جا سکے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں