سیرت النبی قسط نمبر 19
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے قریبی دوستوں کو اسلام کی دعوت دینا
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"جب میں یمن میں اپنی خریداری اور تجارتی کام کر چکا تو رخصت ہونے کے وقت اس کے پاس آیا۔ اس وقت اس نے مجھ سے کہا:
"میری طرف سے چند شعر سن لو جو میں نے اس نبی کی شان میں کہے ہیں۔"
اس پر میں نے کہا:
"اچھی بات ہے سناؤ۔"
تب اس نے مجھے وہ شعر سنائے، اس کے بعد جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے۔فوراً ہی میرے پاس قریش کے بڑے بڑے سردار آئے۔ ان میں زیادہ اہم عقبہ بن ابی معیط، شیبہ، ابو جہل اور ابوالبختری تھے۔ان لوگوں نے مجھ سے کہا:
"اے ابوبکر! ابو طالب کے یتیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہیں۔اگر آپ کا انتظار نہ ہوتا تو ہم اس وقت تک صبر نہ کرتے۔ اب جب کہ آپ آگئے ہیں، ان سے نبٹنا آپ ہی کا کام ہے ۔"
اور یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی دوست تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اچھے انداز سے ان لوگوں کو ٹال دیا اور خود آپ کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی۔ آپ باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا:
"اے ابوبکر! میں تمہاری اور تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں،اس لیے اللہ تعالٰی پر ایمان لے آؤ۔"
آپ کی بات سن کر میں نے کہا:
"آپ کے پاس اس بات کا ثبوت ہے۔"
آپ نے میری بات سن کر ارشاد فرمایا:
اس بوڑھے کے وہ شعر جو اس نے آپ کو سنائے تھے"
یہ سن کر میں حیران رہ گیا اور بولا:"میرے دوست! آپ کو ان کے بارے میں کس نے بتایا؟"
آپ نے ارشاد فرمایا:
"اس عظیم فرشتے نے جو مجھ سے پہلے بھی تمام نبیوں کے پاس آتا رہا ہے۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:"اپنا ہاتھ لایئے! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"
آپ میرے ایمان لانے پر بہت خوش ہوئے، مجھے سینے سے لگایا ۔ پھر کلمہ پڑھ کر میں آپ کے پاس سے واپس آگیا۔
مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو سب سے پہلا کام کیا،وہ تھا اسلام کی تبلیغ۔ انہوں نے اپنے جاننے والوں کو اسلام کا پیغام دیا۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا،چنانچہ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر ان کے چچا حکم کو ہوئی تو اس نے انہیں پکڑ لیا اور کہا:
"تو اپنے باپ دادا کا دین چھوڑکر محمد کا دین قبول کرتا ہے، اللہ کی قسم! میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تو اس دین کو نہیں چھوڑے گا -"
اس کی بات سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم! میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا -"
ان کے چچا نے جب ان کی پختگی اور ثابت قدمی دیکھی تو انہیں دھوئیں میں کھڑا کرکے تکالیف پہنچائیں - حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے - حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق یعنی ساتھی ہوتا ہے اور میرے ساتھی وہاں عثمان ابن عفان ہوں گے -"
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی - آپ کی کوششوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے - اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی - اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہوئے - جاہلیت کے زمانہ میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبدالرحمن رکھا - یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"امیہ ابن خلف میرا دوست تھا، ایک روز اس نے مجھ سے کہا، تم نے اس نام کو چھوڑ دیا جو تمہارے باپ نے رکھا تھا -"
جواب میں میں نے کہا:
"ہاں! چھوڑ دیا -"
یہ سن کر وہ بولا:
"میں رحمٰن کو نہیں جانتا، اس لیے میں تمہارا نام عبدالالٰہ رکھتا ہوں -"
چناں چہ مشرک اس روز سے مجھے عبدالالٰہ کہہ کر پکارنے لگے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
”میں اکثر یمن جایا کرتا تھا، جب بھی وہاں جاتا عسکلان بن عواکف حمیری کے مکان پر ٹھہراکرتاتھا اور جب بھی میں اس کے ہاں جاتا وہ مجھ سے پوچھا کرتا تھا، کیا وہ شخص تم لوگوں میں ظاہر ہوگیا ہے جس کی شہرت اور چرچے ہیں، کیا تمہارے دین کے معاملے میں کسی نے مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ نہیں، ایسا کوئی شخص ظاہر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ وہ سال آگیا جس میں نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا۔ میں اس سال یمن گیا تو اسی کے یہاں ٹھہرا۔ اس نے یہی سوال پوچھا، تب میں نے اسے بتایا:
”ہاں ان کا ظہور ہوگیا ہے۔ ان کی مخالفت بھی ہورہی ہے۔“
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے بارے میں نبیٔ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”تم زمین والوں میں بھی امانت دار ہو اور آسمان والوں میں بھی۔“
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد حضر ت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے کوئی ہچکچاہٹ ظاہر نہ کی فوراً حضور نبیٔ کریم ﷺ کے پاس چلے آئے، آپ سے آپ کے پیغام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے انھیں بتایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۹ سال تھی۔ یہ بنی زہرہ کے خاندان سے تھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ آمنہ بھی اس خاندان سے تھیں۔ اسی لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے ماموں کہلاتے تھے۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بار فرمایا:
”یہ میرے ماموں ہیں، ہے کوئی جس کے ایسے ماموں ہوں۔“
حضر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے اور ان کی والدہ کو ان کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ بات انھیں بہت ناگوار گزری۔ ادھر یہ اپنی والدہ کے بہت فرماںبردار تھے۔ والدہ نے ان سے کہا:
”کیا تم یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے بڑوں کی خاطر داری اور ماں باپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔“
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
”ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔“
یہ جواب سن کر والدہ نے کہا:
”بس تو خدا کی قسم میں اسوقت تک کھانا نہیں کھاؤں گی جب تک محمد کے لائے ہوئے پیغام کو کفر نہیں کہوگے اور اساف اور نائلہ بتوں کو جا کر چھوؤگے نہیں۔“
اس وقت کے مشرکوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان بتوں کے کھلے منہ میں کھانا اور شراب ڈالا کرتے تھے۔
اب والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ سے کہا:
”خدا کی قسم ماں! تمھیں نہیں معلوم، اگر تمھارے پاس ایک ہزار زندگیاں ہوتیں اور وہ سب ایک ایک کرکے اس وجہ سے ختم ہوتیں، تب بھی میں نبی کریم ﷺ کے دین کو ہرگز نہ چھوڑتا۔ اس لیے اب یہ تمھاری مرضی ہے کھاؤ یا نہ کھاؤ۔“
جب ماں نے ان کی یہ مضبوطی دیکھی تو کھانا شروع کردیا، تا ہم اس نے اب ایک اور کام کیا ، دروازے پر آگئی اور چیخ چخ کر کہنے لگی:
”کیا مجھے ایسے مددگار نہیں مل سکتے جو سعد کے معاملے میں میری مدد کریں تاکہ میں اسے گھر میں قید کردوں اور قید کی حالت میں یہ مرجائے یا اپنے نئے دین کو چھوڑدے۔“
حضرت سعد فرماتے ہیں، میں نے یہ الفاظ سنے تو ماں سے کہا:
”میں تمھارے گھر کا رخ بھی نہیں کروں گا۔“
اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ کچھ دن تک گھر نہ گئے۔ والدہ تنگ آگئی اور اس نے پیغام بھیجا:
”تم گھر آجاؤ، دوسروں کے مہمان بن کر ہمیں شرمندہ نہ کرو۔“
چناںچہ یہ گھر چلے آئے۔ اب گھر والوں نے پیار ومحبت سے سجھانا شروع کیا۔ وہ ان کے بھائی عامر کی مثال دے کر کہتی:
”دیکھو عامر کتنا اچھا ہے، اس نے اپنے باپ دادا کا دین نہیں چھوڑا۔“
لیکن پھر ان کے بھائی عامر بھی مسلمان ہوگئے۔ اب تو والدہ کے غیظ وغضب کی انتہا نہ رہی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں