محبت کی قوت کشش :اور آپ کے خیالات کا آپ پراثر

 محبت کی قوت کشش : اور آپ کے خیالات کا آپ  پر اثر



اب سوال یہ ہے کہ یہ قوت کشش کیا چیز ہے؟ اس کا جواب بہت ہی آسان ہے کہ

جسے ہم محبت کی طاقت‘‘ قرار دے رہے ہیں وہی دراصل قوت کشش ہے۔ یعنی کشش کا

دوسرا نام محبت و چاہت ہے۔ جب آپ کے دل میں اپنی پسندیدہ ڈش کی کشش پیدا ہوتی 

ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اس کھانے کو پسند کرتے ہیں، بالفاظ دیگر آپ اس سے

محبت کرتے ہیں، تبھی تو اس کی کشش آپ کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔لہذا ثابت ہوا کہ بغیر

کشش کے آپ کسی چیز کو پسند کر ہی نہیں سکتے۔ آپ کے دل میں اگر کسی چیز کے لیے کوئی

کشش پیدا نہ ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اس کو پسند کریں۔

قانون کشش یا قانون محبت در حقیقت ایک ہی چیز کے دو مختلف

نام ہیں۔

( معروف مصنف : چارلس ہاتل )

معلوم ہوا کہ قانون کشش ہی کا دوسرا نام قانون محبت ہے اور کائنات کا سب سے

طاقتور ترین یہی وہ قانون ہے جو ہر چیز کو باہم موافق اور ہم آہنگ رکھتا ہے۔ بڑی بڑی

کہکشاؤں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرے تک ہر چیز اس قانون کے تحت زیرعمل

ہے۔ کائنات کی ہر چیز پر یہی قانون محبت نہ صرف لاگو ہوتا ہے بلکہ بھر پور طور پر اثر انداز بھی

ہوتا ہے۔ لہذا آپ کی اور ہماری زندگیوں پر بھی اسی قانون کی حکمرانی ہے، جس سے ہمیں

ایک ذرہ برابر بھی دوری حاصل نہیں ہے۔

آفاقی اصولوں کے مطابق قانون کشش کہتا ہے کہ انسان سمیت دنیا کی کوئی بھی چیز

جیساعمل کرتی ہے ویسا ہی اس کا رد عمل پیدا ہوتا ہے۔ اس امر کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد بخوبی

کر سکتے ہیں کہ ہم جو کچھ دیتے ہیں وہی پاتے ہیں، جیسا کرتے ہیں ویسا ہی بھرتے ہیں۔

قانون کشش کے مطابق آپ جس چیز یا جس شخص کو پسند کر یں گے ، رد عمل کے طور پر وہ چیز

یا وہ شخص بھی آپ کو پسند کرے گا۔ اسی طرح آپ اگر کسی چیز یا شخص کو ناپسند کرتے ہیں تو وہ

چیز یا وہ شخص بھی رد عمل کے طور پر آپ کو ناپسند کرے گا۔لہذا یہ قانون کشش ہی ہے کہ آپ

زندگی کو جو کچھ دیں گے یہ زندگی بھی آپ کو وہی کچھ لوٹاۓ گی ۔ اس کو اردو میں کہتے ہیں کہ

جیسا کرو گے ویسا بھرو گے یا جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔“""

ہر عمل کا نہ صرف رد عمل ہوتا ہے بلکہ عملا وہ بالکل مساوی اور ویسا

ہی ہوتا ہے۔

(ماہر طبیعیات در یاضی دان: نیوٹن اسحاق )

لہذا آپ کے دینے کا ہر عمل جوابی طور پر ہمیشہ وہی کچھ وصول کرتا ہے جو کچھ آپ

نے دیا ہوتا ہے۔ اس عمل میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ہوتی بلکہ مکمل مساوات ہوتی ہے ۔ اور یہی

کائنات کا مسلمہ ریاضیاتی اور طبیعیاتی اصول ہے جس کا انکار یا تردید کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔

کسی کے ساتھ آپ کا سلوک یا برتاؤ مثبت ہوگا تو اس کے جواب میں آپ کو اس کا رد عمل بھی مثبت طور پر ملے گا۔ اگر آپ کا برتاؤ منفی ہوگا تو آپ بھی واپسی میں منفیت ہی

وصول کریں گے۔ اگر آپ کے خیالات اور قول وعمل مثبت ہوں گے تو آپ کی زندگی مثبت

عوامل سے لبریز ہو جائے گی ،لیکن اگر آپ کے خیالات اور قول وعمل منفی ہوں گے تو یاد

رکھیں کہ آپ کی زندگی بھی منفی عوامل سے بھر جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارا عمل یا برتاؤ

مثبت یا منفی کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے خیالات اور احساسات ہیں۔

جی ہاں! ہم ہر لمحے مثبت سوچ رہے ہوتے ہیں یا منفی، ہم اپنے دل و دماغ سے

مثبت احساسات خارج کر رہے ہوتے ہیں یا منفی.... ہماری زندگی میں لاحق ہونے والے

تمام عوامل کا انحصار ہمارے انہی خیالات و احساسات پر ہوتا ہے۔ ہم جس قسم کی سوچ رکھتے

ہیں ہمیں زندگی میں اس قسم کے سلوک یا برتاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری زندگی میں آنے

والے تمام لوگ ، تمام واقعات و حادثات جن سے ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ عبارت ہوتا

ہے وہ ہمارے خیالات و احساسات کی ہی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری

زندگیوں میں پیش آنے والے واقعات خود بخود ہی رونما نہیں ہو رہے ہوتے بلکہ یہ ہماری سوچوں اور خیالات کے عین مطابق وموافق ہوتے ہیں۔

زندگی کے ساتھ آپ جیسا سلوک کرو گے یہ بھی آپ کے ساتھ ۔

ویسا ہی سلوک کرے گی، اور یہ برتاؤ اسی پیانے کے مطابق ہوگا جو

آپ کے پاس ہے ۔

(حضرت عیسی علیہ السلام: لوقا، 6:38)

مذکورہ بالا قول کی صداقت و حقانیت کے لیے ایک انتہائی دلچسپ واقعہ ملاحظہ

فرمائیں!

’’ایک گوالا کسی بیکری والے کو روزانہ ایک کلومکھن دیا کرتا تھا۔ بیکری والے

کو ایک دن شک ہوا کر مکھن ایک کلو سے کم ہوتا ہے اور یہ گوالا پورا ناپ کر

نہیں دیتا۔ لہذا اس نے مکھن کو ترازو میں تول کر دیکھا تو وہ واقعی ایک کلو

سے کافی کم تھا۔ بیکری والے نے گوالے کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ یہ

گوالا اتنے عرصے سے مجھے روزانہ ایک کلومکھن فروخت کرتا ہے لیکن وہ

پورا نہیں ہوتا، اس میں اتنا وزن کم ہوتا ہے۔ لہذا عدالت عالیہ گوالے سے

میرے اس نقصان کا ازالہ کرواۓ جو اس نے اتنے عرصے میں مجھے پہنچایا

ہے۔

عدالت نے گوالے کوطلب کر کے تفتیش کی اور اس سے پوچھا کہ

وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ گوالے نے جواب دیا کہ جناب عالی! میں ایک

غریب آدمی ہوں، میرے پاس ناپ تول کے لیے ترازو تو موجود ہے لیکن

اصلی باٹ نہیں ہیں جن سے میں وزن کر سکوں۔ اس مسئلے کا حل میں نے

اس طرح نکالا کہ میں اس بیکری والے سے روزانہ ایک کلو ڈبل روٹی لے

جاتا ہوں۔ میرے پاس اور تو کوئی پیمانہ ہوتا نہیں ہے، لہذا میں اسی ڈبل روٹی کوترازو کے ایک پلڑے میں ڈال کر مکھن کا وزن کر لیتا ہوں ۔۔ جناب

عالی ! اگر مکھن کا وزن کم ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ وزن تو خوداس

بیکری والے نے کیا ہوتا ہے۔ گوالے کا یہ جواب سن کر بیکری والے کا رنگ

فق ہو گیا اور اسے جج کے فیصلے کے بغیر ہی انصاف مل گیا تھا ۔

کائنات کے آفاقی اصول اور قانون کشش کی یہ زندہ اور جیتی جاگتی مثال ہے کہ ہم

جو کچھ دے رہے ہوتے ہیں وہی کچھ وصول بھی کر رہے ہوتے ہیں۔اس کی ایک اور مثال

ملاحظہ فرمائیں کہ اگر آپ کا کوئی دوست کسی دوسرے مکان میں شفٹ ہورہا ہے اور اسے اپنا

سامان ادھر منتقل کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی مدد کی ضرورت ہے تو اس کا اس معاملے

میں ہاتھ بٹا دیں۔ آپ کی طرف سے اپنے دوست کی اس مدد کا لازمی نتیجہ اس صورت میں

برآمد ہوگا کہ جب آپ کو اسی نوع کے کام کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت پڑے گی تو آپ کا

 دوست فورا آپ کی مدد کے لیے آن پہنچے گا۔ اس لیے میں قانون کشش کی یہ تشریح کرتی

ہوں کہ جو کچھ آپ دیں گے وہی کچھ وصول کریں گے۔

آپ کو اگر اپنے خاندان کے کسی فرد نے کسی معاملے میں پریشان یا مایوس کیا ہے تو

آپ اس سے غصہ یا نفرت کر کے دیکھ لیجئے جواب میں آپ کو بھی ایسی ہی صورت کا سامنا

کرنا پڑے گا ، خواہ وہ کسی اور فرد کی طرف سے ہو یا کسی ناگہانی حادثے کی شکل میں ہو،

بہر کیف آپ کو اپنے عمل کے ایسے ہی رد عمل کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔

ان تمام امور سے ثابت ہوا کہ آپ اپنے خیالات و جذبات کے ذریعے اپنی زندگی کو

خود تشکیل دیتے ہیں۔ آپ جو کچھ سوچتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں آپ کے ساتھ زندگی میں

وہی کچھ ہوتا ہے۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ آج کا دن میرے لیے انتہائی مشکل اور ناخوشگوار

ہے تو واقعی وہ دن آپ کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوگا، کیونکہ آپ اپنی قوت کشش کے

ذریعے تمام افراد، تمام واقعات و حادثات کو اپنی طرف اس انداز میں متوجہ کر رہے ہوتے ہیں

کہ وہ آپ کے لیے کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کر دیں گے، اور آپ کا یہ دن آپ کے لیے واقعی انتہائی ناخوشگوار ثابت ہوگا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ آپ نے سوچا ہی ایسا تھا۔

لہذا جیسی نیت ہوگی ویسی ہی مراد ہوگی۔اس کے برعکس اگر آپ سوچتے اور محسوس کرتے کہ

میرا آج کا دن بڑا ہی شاندار گزرے گا تو وہ دن آپ کے لیے فی الواقع ویسا ہی ثابت ہوتا ،

کیونکہ آپ کی سوچوں کی قوت کشش حالات کو ایسا ہی بنا دیتی ہے۔


محبت کی قوت کشش

 آپ کے خیالات کا آپ اثر

محبت اور عشق کا فرق
آپ کا نام آپ کی شخصیت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
شخصیت نگاری
پاکستان میں اردو خاکہ نگاری


تبصرے