حضرت بلال کا حضور ﷺ کے لئے ایک مشرک سے قرض لینا

 حضرت بلال کا حضور ﷺ کے لئے ایک مشرک سے قرض لینا




حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے
اخراجات کی کیا صورت ہوتی تھی؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس کچھ جمع تو رہتا ہی نہیں تھا ۔ یہ خدمت میرے سپردتھی جس کی صورت یہ تھی کہ اگر کوئی
مسلمان بھوکا آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ارشادفرمادیتے ۔ میں کہیں سے قرض لے کر اس
کو کھانا کھلا دیتا۔ کوئی ننگا آتا تو مجھے ارشادفرمادیتے ۔ میں کسی سے قرض لے کر اس کو کپڑا پہنا
دیتا۔  ایک مرتبہ ایک مشرک مجھے ملا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے
وسعت اور ثروت حاصل ہے، تو کسی سے قرض نہ لیا کر۔ جب ضرورت ہوا کرے مجھ ہی سے
قرض لے لیا کر۔ میں نے کہا کہ اس سے بہتر کیا ہوگا۔ اس سے قرض لینا شروع کر دیا۔ جب
ارشاد عالی ہوتا اس سے قرض لے آیا کرتا اور ارشاد والا کی تعمیل کر دیا کرتا۔ ایک مرتبہ وضو کر کے
اذان کہنے کے لئے کھڑا ہی تھا کہ وہی مشرک ایک جماعت کے ساتھ آیا اور کہنے لگا او حبشی! میں
ادھر متوجہ ہوا تو ایک دم بے تحاشا گالیاں دینے لگا اور برا بھلا جو منہ میں آیا کہا اور کہنے لگا کہ مہینہ
ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں؟ میں نے کہا قریب ختم کے ہے ۔ کہنے لگا کہ چار دن باقی ہیں۔
اگر مہینہ کے ختم تک میرا سب قرضہ ادا نہ کیا تو تجھے اپنے قرضہ میں غلام بناؤں گا اور پہلے کی طرح بکریاں چرا تا پھرے گا ۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا اور مجھ پر دن بھر جو گذرنا چاہیئے تھاوہی گذرا ۔
تمام دن رنج و صدمه سوار رہا۔ عشاء کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تنہائی
میں حاضر ہوا اور سارا قصہ سنایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آپ کے پاس اس
وقت ادا کر نے کوفوری انتظام ہے اور نہ کھڑے کھڑے میں کوئی انتظام کر سکتا ہوں۔ وہ ذلیل
کرے گا، اس لئے اگر اجازت ہو تو اتنے قرض اترنے کا انتظام ہو، میں کہیں روپوش ہو
جاؤں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ آ جائے گا میں حاضر ہو جاؤں گا۔ یہ
عرض کر کے میں گھر آیا۔ تلوار لی ، ڈھال اٹھائی ، جو تہ اٹھایا۔ یہ ہی سامان سفر تھا اور صبح ہونے کا
انتظار کرتا رہا کہ صبح کے قریب کہیں چلا جاؤں گا۔ صبح قریب ہی تھی کہ ایک صاحب دوڑے
ہوۓ آۓ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جلدی چلو ۔ میں حاضر خدمت ہوا تو دیکھا
کہ چاراونٹنیاں جن پر سامان لدا ہوا تھا بیٹھی ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، خوشی کی بات
سناؤں کہ اللہ تعالی نے تیرے قرضہ کی بے باقی کا انتظام فرما دیا۔ میاں یہ اونٹنیاں بھی تیرے حوالے
اور ان کا سب سامان بھی ۔فدک کے رئیس نے نذرانہ مجھے بھیجا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا
اور خوشی خوشی ان کو لے کر گیا اور سارا قرضہ ادا کر کے واپس آیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اتنی
دیر مسجد میں انتظار فرماتے رہے ۔ میں نے واپس آ کر عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر
ہے حق تعالی نے سارے قرضہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سبکدوش کر دیا اور اب کوئی چیز بھی
قرضہ کی باقی نہیں رہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سامان میں سے بھی کچھ باقی
ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں کچھ باقی ہے۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بھی تقسیم
ہی کر دے تا کہ مجھے راحت ہو جاۓ ۔ میں گھر میں بھی اس وقت تک نہیں جانے کا جب تک یہ تقسیم نہ ہو جاۓ ۔ تمام دن گذر جانے کے بعد عشاء کی نماز سے فراغت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے دریافت فرمایا کہ وہ بچا ہوا مال تقسیم ہو گیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ کچھ موجود ہے ۔
ضرورت مند آۓ نہیں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ہی میں آرام فرمایا۔ دوسرے دن
عشاء کے بعد پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو بھئی کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ جل
شانہ نے آپ کو راحت عطافرمائی کہ وہ سب نمٹ گیا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ جل
جلالہ کی حمد وثنافرمائی ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو  یہ ڈر ہوا کہ خدانخواستہ موت آ جاۓ اور کچھ
حصہ مال کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک میں رہے ۔ اس کے بعد گھروں میں تشریف لے گئے
اور بیویوں سے ملے۔ (بذل)
فائدہ: اللہ والوں کی یہی خواہش رہتی ہے کہ ان کی ملک میں مال ومتاع کچھ نہ رہے، پھر
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کیا پوچھنا جو سارے نبیوں کے سردار، سارے اولیاء کے
سرتاج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خواہش کیوں نہ ہوتی کہ میں دنیا سے بالکل فارغ ہو
جاؤں ۔ میں نے معتبر ذرائع سے سنا ہے کہ حضرت اقدس مولا نا شاہ عبدالرحیم صاحب رائےپوری
نوراللہ مرقدہ کا معمول یہ تھا کہ جب نذرانوں کی رقم کچھ جمع ہو جاتی تو اہتمام سے منگوا کر
سب تقسیم فرمادیتے ۔ اور وصال سے قبل تو اپنے پہننے کے کپڑے وغیرہ بھی اپنے خادم خاص
حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب مدظلہ کو دے دیئے تھے اورفرمایا تھا کہ بس اب تم سے
مستعار لے کر پہن لیا کروں گا ۔ اپنے والد صاحب یعنی حضرت مولا یحییٰ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
کو میں نے بار ہاں دیکھا کہ مغرب کے بعد جو کوئی روپیہ پاس ہوتا وہ کسی قرض خواہ کو دے دیتے کہ کئی ہزار کے مقروض تھے، اور مجھے فرمایا کرتے کہ یہ جھگڑے کی چیز میں رات کو اپنے پاس نہیں
رکھتا ۔ اس نوع کے بہت سے حالات اکابر کے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر شیخ کا ایک ہی رنگ
ہو۔ مشائخ کے الوان مختلف ہوتے ہیں اور چین کے پھولوں میں ہر پھول کی صورت و سیرت
ممتاز ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے اکابرین کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

تبصرے