حوصلے ماند پڑتے گئے
راشد کچھ دنوں سے نہایت خاموش اور الجھا الجھا دکھائی دیتا تھا اس کے دوست اس کے اس رویے سے بہت پریشان تھے دن بدن اس کی حالت اس گہرے
کنویں کی مانند ہوتی جارہی تھی جو اپنا پانی کنویں کی تہہ میں چھوڑ کر ساکت ہوگیا ہو ۔ بظاہر کوئی گھریلو پریشانی بھی نہیں تھی پھر بھی گھر ہو یا گھر سے باہر اس پر سکوت کی کیفیت طاری رہتی ۔
راشد ایک ہنس مکھ اور ملنسار لڑکا تھا جس کی سوچ ہمیشہ مثبت رہتی تھی اور مستقبل کے سنہرے خواب اس کی آنکھوں کو مزید روشن کیے رکھتے تھے ۔ اردو ادب سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا ۔ تعلیمی میدان میں بھی اسکی کارکردگی قابل ستائش تھی اس نے ہمیشہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی مدد کی چونکہ وہ اردو زبان سے محبت رکھتا تھا اس لئے اس نے کئی بار اپنے ساتھیوں کو مختلف موضوعات پر تقاریر و مضامین لکھ کر دیئے نہ صرف لکھ کر دیئے بلکہ انہیں ادائیگی کا طریقہ بھی سکھایا اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن اسے بخوبی آتا تھا وہ جانتا تھا کہ کس طرح دلچسپ پیرائے میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا ہے ۔
ان پوشیدہ خوبیوں کے علاوہ راشد ایک محنتی لڑکا بھی تھا اسی لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی جمع پونجی سےایک چھوٹی سی دکان بھی کھولی تھی تاکہ اپنے گھر والوں کا کچھ سہارا بن سکے۔ اللہ کی رحمت ساتھ رہی اور اس نے تعلیمی دور مکمل کیا ۔ اب وہ اپنے گھر والوں کے لئے ایک مضبوط سہارا بننا چاہتا تھا لیکن آج کل اس کی حالت ایسی ہوچکی تھی جیسے اس کو خود سہارے کی ضرورت ہو ۔ وہ ہر وقت اپنے خیالات میں گم رہتا یا مشینی انداز میں اپنے معمول کے کام کرتا رہتا ۔
ایک دن یونہی وہ اکیلا اپنے خیالوں میں گم بیٹھا تھا کہ اس کا دوست ساجد اس کے قریب آکر بیٹھ گیا جس کی اسے چنداں خبر نہ ہوئی ۔ ساجد کا تعلق بھی ایک متوسط لیکن دیندار گھرانے سے تھا دونوں کی دوستی کو طویل عرصہ بیت چکا تھا دونوں ایک دوسرے کے احوال سے باخبر رہتے اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے ، ساجد بھی راشد کی اس ذہنی کیفیت سے کافی پریشان تھا ۔ ابھی بھی راشد کو متوجہ کرنے کے لئے اس نے زوردار انداز میں سلام کیا ۔ راشد اس کی اچانک آواز سے چونک گیا ساجد کو اسی موقع کی تلاش تھی کہ کب راشد اکیلے میں ملے اور وہ اس کی اس حالت کی وجہ جان سکے ، اس نے سوچا کہ آج موقع اچھا ہے راشد سے کھل کر بات کی جائے ۔ ساجد نے راشد سے پوچھا کہ یار کیا بات ہے آج کل تم بہت خاموش اور اداس رہتے ہو کسی سے ملتے جلتے بھی نہیں سب خیر تو ہے نا ؟؟؟ لیکن یہ کیا ؟ جواب ندارد !
جیسے راشد نے ساجد کی کوئی بات سنی ہی نہ ہو ۔ ساجد نے اپنا سوال پھر دہرایا لیکن راشد کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اسے تھوڑا غصہ آیا تو اس نے راشد کو بازو سے پکڑ کر ہلایا تو راشد یک دم جیسے نیند سے جاگا ہو اس نے ساجد کی طرف بے بس نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا یار مجھے خود نہیں معلوم کہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے ۔ لیکن ساجد بھی اتنی آسانی سے ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا اس نے بھی آج پختہ ارادہ کرلیا کہ راشد کی اداسی کی وجہ جانے بغیر یہاں سے نہیں جائے گا ۔ ساجد نے راشد کا ہاتھ پکڑا اور اسے ساتھ لے کر قریبی پارک کی طرف چل پڑا اندر جاکر دونوں سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھ گئے اور ساجد گہری نظروں سے راشد کا جائزہ لینے لگا جو اپنے اردگرد سے بے خبر درختوں کے پتوں پر لکھی ان دیکھی تحریر کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
پھر ایک دم بولنے لگا یار ساجد یہ درخت کتنے خوش نصیب ہیں جن کو نا کھانے کی فکر ہے نا پینے کی لیکن پھر بھی عوام کو فائدہ پہنچاتے ہیں لوگوں کو سایہ فراہم کرتے ہیں اور ان کی ضروریات زندگی میں کام آتے ہیں پھر بھی انکو کسی بھلائی کی امید نہیں کیونکہ لوگ انہیں ہی کاٹتے ہیں اور جلادیتے ہیں اور وہ گونگے ہونے کیوجہ سے خاموش رہتے ہیں.
یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہوگیا بولتے بولتے اسکی آنکھیں پانی سے بھر چکی تھیں اس نے بات کو جاری رکھا کہ ایک انسان ہے وہ ہمیشہ اپنی تعریف اور حوصلہ افزائی کا بھوکا رہتا ہے اگر اسکی تعریف اور حوصلہ افزائی نا کیجائے تو وہ ایک پودے کیطرح سوکھنا شروع ہوجاتا ہے جسکو لگا تو دیا ہو مگر پانی سے دور رکھا ہو اگر اسی پودے کو پانی دینے لگ جائیں تو وہی پودا آنے والے وقت میں ایک مضبوط تناور درخت بنتا ہے.
یہی حال انسان کا ہے کہ اگر اس کے ابتدائی کاموں پر چاہے وہ تعلیمی سرگرمیوں سے ہوں یا کسی دوسری جہت سے اسکی تعریف کی جائے تو وہ بھی ایک مضبوط درخت کی طرح ابھرتا ہے اور ابھرتا چلا جاتا ہے.
راشد بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوگیا اسکی آنکھیں ٹپکتے نل کی طرح بولنے لگیں.
ساجد نے یہ دیکھ کر اس کو تسلی دی اور بولا تمہارا ان سب باتوں سے کیا واسطہ،
راشد ایک بار پھر گفتگو کا آغاز کرتا ہے اس بار اسکی آواز میں کپکپاہٹ اور غمگینی شامل ہوتی ہے کہتا ہے نہیں یار سب مثالیں مینے اپنے لیے ہی بیان کی ہیں میری حالت درخت سے جھڑے ان پتوں کی طرح ہوگئی ہے جو ہوا سے کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتے رہتے ہیں جنکا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا ساجد یار تم جانتے ہو مینے ہر میدان میں قدم رکھا ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جلسوں میں گیا مقابلوں میں حصے لیے شاعری کہانی مضمون نگاری سب کچھ مینے کیا گھر والوں کا سہارا بننے کے لیے مینے اپنی جمع پونجی سے کاروباری میدان میں قدم رکھا لیکن کسی میدان میں مجھے تسلی نا ملی کسی نے میری تعریف اور حوصلہ افزائی کے لیے لفظ نہیں کہے مجھے یوں لگا کہ جیسے یہ سب الفاظ میرے قسمت سے غائب ہو گئے ہیں مگر سننے کو جو لفظ ملا وہ یہی کہ تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تم کبھی کچھ نہیں کرسکتے تم ذلیل ہو گے تم ایک جاہل سے بھی بد تر ہو
میری بیماری کو بہانے سے تعبیر کیا جانے لگا میری ہزاروں اچھائیاں ایک غلطی میں دبائی جانی لگیں کیا مجھے میری تعلیم نے رسوا کر دیا ہر وقت مجھے میرے علم کے طعنے دیے جانے لگتے ہیں
راشد کی آواز گہری ندی میں گرنے والے پانی کیطرح بھاری ہوچکی تھی مگر یہ اسکے اندر سے خود بہ خود پیدا ہونے والے الفاظ تھے جو اسکی زبان ادائیگی کر رہی تھی کاش میری بھی کوئی انگلی پکڑتا کاش مجھے بھی کوئی حوصلہ دیتا میری بھی کوئی تعریف کرتا اور کہتا ماشاءاللہ آج تم نے فلاں کام کر کے میرا دل خوش کردیا تمہاری فلاں چیز دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی تاکہ میں بلندیوں پر پہنچتا اپنے سوئے ہوئے خواب پورے کرتا یہاں تک کہہ کر اسکی آواز بند ہو گئی اور اسکی آنکھوں کا سمندر بہتا چلا گیا آخری الفاظ جو اس کے منہ سے نکلے وہ یہ تھے
کوئی بھی کام کر لوں میں مگر مایوس رہتا ہوں
مجھے تو اپنے پیڑوں سے کوئی بھی پھل نہیں ملتا
ساجد بھی اپنا ضبط کھو بیٹھا تھا اور وہ بھی برستی بارش کیطرح آنسوں بہانے لگا راشد کی روداد سن کر ساجد کی حالت بھی غیر ہو چکی تھی۔ساجد خود کو سنبھالتے ہوئے بولا کہ راشد تم خود کو پتھر کی طرح مضبوط کرو اتنا مضبوط کرو کہ کوئی تمہیں توڑنا چاہے تو توڑ نا سکے۔آج کا یہ دستور چل نکلا ہے کہ ہر بڑھتے قدم کو روکا جاتا ہے نا کہ اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔خود کو ثابت قدم رکھو منزلیں جلد تمہارا مقدر بنے گی۔ساجد اپنی بات ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا دونوں نے پنی آنکھیں صاف کی اور پارک سے باہر نکل دیے۔
اس کہانے کے تناظر میں ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے،
آج ہم اپنے بچے کی ایک غلطی پر اس کی ڈانٹ ڈپٹ تو کرتے ہیں پر ہم اس کے ہزاروں اچھے کام نظر انداز کر جاتے ہیں جسکی وجہ سے بچوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور وہ کچھ اچھا کرنے کی بجائے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور انکی سوچ کا دائرہ محدود ہو کر رہ جاتا ہے.جس کا خمیازہ انہیں بچوں کو مستقبل میں بھگتنا پڑتا ہے بسا اوقات وہ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے ذہنی دباؤ کے جیسے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچے کبھی کبھی ایسے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی امید نہیں کی جاتی۔تو ہمیں چاہیے کہ جس طرح ہم کسی کے سامنے اس کی غلطیوں کو اجاگر کرتے ہیں اسی طرح اس کے ہزاروں اچھے کاموں کا تذکرہ بھی بھری مجلس میں کریں تاکہ بچے میں شوق پیدا ہو مزید کچھ بڑا کر نے کا۔اسی طرح بچے کو اسکی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کم کریں لیکن اسکے اچھے کام اجاگر کریں تعریف کریں تاکہ مستقبل میں وہ آپ کا نام مزید روشن کریں۔
بقلم
اداس راہی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں