حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کفن۔ایک کا کفن دو میں کس طرح تقسیم ہوا
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے اور
بے درد کافروں نے آپ رضی اللہ عنہ کے کان ناک وغیر ہ اعضاء کاٹ دیئے اور سینہ چیر کر
دل نکالا اور طرح طرح کے ظلم کئے ۔لڑائی کے ختم پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم شہیدوں کی لاشیں تلاش فرما کر ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام فرما
رہے تھے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں دیکھا ۔ نہایت صدمہ ہوا اور ایک چادر
سے ان کو ڈھانپ دیا۔ اتنے میں حمزہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا
تشریف لائیں کہ اپنے بھائی کی حالت دیکھیں ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ
عورت میں ایسی حالت دیکھنا د مشکل ہوتا ہے ، ان کے صاحبزادہ حضرت زبیر رضی اللہ
عنہ سے ارشادفرمایا کہ اپنی والدہ کو دیکھنے سے منع کرو۔ انہوں نے والدہ سے عرض کیا کہ
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنے کو منع فرمایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سنا ہے کہ
میرے بھائی کے ناک کان وغیرہ کاٹ دیئے گئے ۔ اللہ کے راستے میں یہ کوئی بڑی بات
ہے۔ ہم اس پر راضی ہیں ۔ میں اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھتی ہوں اور ان شاء اللہ
صبر کروں گی ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر اس کلام کا ذکر کیا
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب کوسن کر دیکھنے کی اجازت عطا کر دی۔آ کر دیکھا۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور ان کے لئے استغفار اور دعا کی ۔ ایک روایت میں ہے کہ غزوہ احد میں جہاں
نعشیں رکھی ہوئی تھیں ایک عورت تیزی سے آ رہی تھی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دیکھو،عورت کو روکو ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ میری والدہ ہیں
میں جلدی سے روکنے کے لئے بڑھا مگر وہ قوی تھیں ، ایک گھونسا میرے مارا اور کہا: پرے
ہٹ ۔ میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے تو فورا کھڑی ہوگئیں ۔اس کے
بعد دو کپڑے نکالے اور فرمایا کہ میں اپنے بھائی کے کفن کے لئے لائی تھی کہ میں ان کے
انتقال کی خبر سن چکی تھی ۔ ان کپڑوں میں ان کو کفنا دینا۔ ہم لوگ وہ کپڑے لے جا کر حضرت
حمزہ رضی اللہ عنہ کو کفنانے لگے کہ برابر میں ایک انصاری شہید پڑے ہوئے تھے جن کا نام
حضرت سہیل رضی اللہ عنہ تھا۔ ان کا بھی کفار نے ایسا ہی حال کر رکھا تھا جیسا کہ حضرت حمزہ
رضی اللہ عنہ کا تھا۔ ہمیں اس بات سے شرم آئی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دو کپڑوں میں کفن
دیا جاۓ اور انصاری کے پاس ایک بھی نہ ہو۔ اس لئے ہم نے دونوں کے لئے ایک ایک
کپڑا تجویز کر دیا۔ مگر ایک کپڑا ان میں بڑا تھا دوسرا چھوٹا ۔ ہم نے قرعہ ڈالا کہ قرعہ میں جو
کپڑا جن کے حصہ میں آئے گا وہ ان کے کفن میں لگایا جاۓ ۔ قرعہ میں بڑا کپڑا حضرت
سہیل رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا اور چھوٹا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا جو
ان کے قد سے بھی کم تھا۔ اگر سر کو ڈھانکا جا تا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں کی طرف کیا جا تا
تو سرکھل جا تا ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا کہ سرکو کپڑے سے ڈھانک دواور
پاؤں پر پتے وغیرہ ڈال دو ۔ابن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جب دو کپڑے لے
کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش پر پہنچیں تو ان کے قریب ہی ایک انصاری اسی حال میں
پڑے ہوۓ تھے تو ایک ایک کپڑے میں دونوں کو کفن دیا گیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کپڑا
بڑا تھا۔ یہ روایت مختصر اور ٹمیس کی روایت مفصل ہے ۔
فائدہ: یہ دو جہاں کے بادشاہ کے چچا کا کفن ہے وہ بھی اس طرح کہ ایک عورت اپنے بھائی
کے لئے دو کپڑے دیتی ہے اور اس میں یہ گوارا نہیں کہ دوسرا انصاری بے کفن رہے۔ایک ایک
کپڑا بانٹ دیا جا تا ہے اور پھر چھوٹا کپڑا اس شخص کے حصہ میں آ تا ہے جو کئی وجہ سے ترجیح کا
استحقاق بھی رکھتا ہے۔ غریب پروری اور مساوات کے دعویدار اگر اپنے دعوؤں میں بچے ہیں تو
ان پاک ہستیوں کا اتباع کر میں جو کہہ کر نہیں بلکہ کر کے دکھلا گئے ۔ ہم لوگوں کو اپنے لئے ان کا
پیرو کار کہنا بھی شرم کی بات ہے۔ اللہ اکبر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں