احد کی لڑائی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری

احد کی لڑائی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری



غزوۂ احد میں مسلمانوں کو کچھ شکست ہوئی اس وقت مسلمان
چاروں طرف سے کفار کے بیچ میں آ گئے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ شہید بھی ہوئے اور کچھ
بھاگے بھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کفار کے ایک جتھے کے بیچ میں آ گئے اور کفار نے یہ
مشہور کر دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ۔ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اس خبر
سے پریشان حال تھے، اسی وجہ سے بہت سے بھاگے بھی اور ادھر ادھر متفرق ہو گئے ۔ حضرت
علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب کفار نے مسلمانوں کو گھیر لیا، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم میری نظر سے اوجھل ہو گئے تو میں نے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اول زندوں میں تلاش کیا
مگر نہ پایا۔ پھر شہداء میں جا کر تلاش کیا وہاں بھی نہ پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا تو ہو
نہیں سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی سے بھاگ جائیں ۔ بظاہر حق تعالی شائد ہمارے اعمال
کی وجہ سے ہم پر ناراض ہوۓ اس لئے اپنے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آسان پر اٹھالیا۔
اس لئے اب اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ میں بھی تلوار لے کر کافروں کے جتھے میں گھس
جاؤں یہاں تک کہ مارا جاؤں ۔ میں نے تلوار لے کر حملہ کیا یہاں تک کہ کفار نیچ میں سے ہٹتے
گئے اور میری نگاہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ گئی تو بیحد مسرت ہوئی ، اور میں نے سمجھا کہ اللہ
جل شانہ نے ملائکہ کے ذریعہ سے اپنے محبوب کی حفاظت کی ۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس جا کر کھڑا ہوا کہ ایک جماعت کی جماعت کفار کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کے لئے
آئی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ علی ان کو روکو۔ میں نے تنہا اس جماعت کا مقابلہ کیا
اور ان کے منہ پھیر دیئے اور بعضوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد پھر ایک اور جماعت حضورصلی اللہ
علیہ وسلم پر حملہ کی نیت سے بڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف
اشارہ فرمایا۔انھوں نے پھر تنہا اس جماعت کا مقابلہ کیا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام
نے آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس جوانمردی اور مدد کی تعریف کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ’’انه منى وانا منہ: بے شک علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں‘‘
یعنی کمال اتحاد کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض
کیا: ’’وانا منكما: میں تم دونوں سے ہوں‘‘۔ (قرۃ العیون)
فائدہ: ایک تنہا آدمی کا جماعت سے بھر جانا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات کو نہ
پا کر مر جانے کی نیت سے کفار کے جمگھٹے میں گھس جانا، جہاں ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ کچی محبت اور عشق کا پتہ دیتا ہے، وہاں دوسری جانب کمال بہادری اور دلیری و جرات
کا بھی نقشہ پیش کرتا ہے۔

تبصرے