حدیثِ مبارکہ/ إنما الأعمال بالنيات

 حدیثِ مبارکہ/ إنما الأعمال بالنيات




قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
 إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه

حدیثِ مبارکہ کا ترجمہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تمام کاموں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی کی جانب ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی 
ہجرت انہی کی جانب ہے)

حدیثِ مبارکہ کی وضاحت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل قابلِ قبول ہوگا جس میں نیت ٹھیک ہو، اگر نیت ٹھیک نہیں تو وہ عمل فاسد اور مردود ہوگا
اسی طرح جب کوئی نیک عمل شروع کرنا ہو تو سب سے پہلے اپنی نیت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ ہمیں ہماری نیت کے حساب سے ثواب مل سکے،
اسی طرح علماء کے یہ عادت ہے جب بھی وہ اپنی کتاب کی ابتداء کرتے ہیں تو وہ اس حدیث کو ابتداء میں لیکر آتے ہیں تاکہ پڑھنے پڑھانے والے اپنی نیتوں کو شروع ہی میں  ٹھیک کر لیں، 
امام شافعی و امام احمد رحمہمُ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں تین قسم کے اعمال  ہیں، نمبر 1 وہ اعمال جن کا تعلق دل سے ہو, نمبر 2 وہ اعمال جن کا تعلق زبان سے ہو
 نمبر 3 وہ اعمال جن کا تعلق اعضاء سے ہو
تو اس سے معلوم ہوا اس حدیثِ مبارکہ کا تعلق ان تینوں اعمال سے ہے،

حدیثِ مبارکہ کا شان ورود

 اشکال 

اس حدیثِ مبارکہ کے شان ورود میں دو روایتیں ہیں نمبر 1 مواھب لدنیہ میں اس روایت کے متعلق ہے کہ ایک صاحب نے ہجرت کی اور پھر ایک عورت سے نکاح کرلیا،
دوسری روایت طبرانی میں ہے اس روایت میں اس عورت کا نام ام قیس بتایا گیا ہے،
اس حدیثِ مبارکہ پر اشکال ہوتا ہے کہ دنیا میں تو عورت داخل ہے پھر اس کو خاص کر کے ذکر کیوں کیا گیا ہے،

جوابات

علماء کرام نے اس اشکال کے کئی جوابات دیے ہیں 
پہلا یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ کا شان ورود چونکہ ایک عورت ہی کا واقعہ ہے اس لیے اس کو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے،
دوسرا جواب۔ عورت کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہے اس کے فتنے میں بڑے بڑے پھنس جاتے ہیں اس لیے اس کو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے،
تیسرا جواب۔جب مہاجرین مدینہ آئے تو انصار نے ان کے ساتھ ہمدردی کی کہ اپنی جائداد اور مال وغیرہ ان کو دینا چاہا۔حتی کہ بعض انصار نے اپنے مہاجر بھائی سے یہ تک کہا کہ میری بیویوں میں سے جو تم کو پسند ہو میں اسکو طلاق دے دیتا ہوں تم اس سے نکاح کر لینا۔
تو یہاں اس بات کا احتمال تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ مکہ میں مال اور بیوی کو چھوڑ دو مدینہ میں سب کچھ مل جائے گا مال بھی عورت بھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو یہاں پر ذکر کیا۔۔۔۔


تبصرے